RelationDigest

Wednesday, 4 January 2023

[New post] حکومت چھوڑ دیں اگر…؟

Site logo image KHAWAJA UMER FAROOQ posted: " اگر شہباز شریف حکومت خراب معیشت کی بہتری اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے سخت فیصلے نہیں کر سکتی تو پھر حکومت سے چپکے بیٹھنے کا کیا جواز ہے۔؟ یا تو فیصلے کریں یا حکومت چھوڑ دیں کیوں کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ حکومت بڑے فیصلے کئے بغیر کسی معجزے کے انتظار میں" Pakistan Insider

حکومت چھوڑ دیں اگر…؟

KHAWAJA UMER FAROOQ

Jan 5

اگر شہباز شریف حکومت خراب معیشت کی بہتری اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے سخت فیصلے نہیں کر سکتی تو پھر حکومت سے چپکے بیٹھنے کا کیا جواز ہے۔؟ یا تو فیصلے کریں یا حکومت چھوڑ دیں کیوں کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ حکومت بڑے فیصلے کئے بغیر کسی معجزے کے انتظار میں بیٹھی رہے اور پاکستان خدا نخواستہ سری لنکا جیسے حالات سے دوچار ہو جائے۔ جو سخت فیصلے کرنے ہیں اُن سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا، بے روزگاری بھی بڑھی گی، غریب کے ساتھ ساتھ مڈل کلاس کی زندگی مزید مشکل ہو جائے گی لیکن اگر سخت فیصلے نہ کئے گئے تو مہنگائی کا وہ طوفان آئے گا جو کسی سے سنبھالا نہیں جاسکے گا۔ ہماری قوم کے مقابلے میں سری لنکا کے لوگ بہت برداشت والے ہیں لیکن اس کے باوجود وہاں جو کچھ ہوا وہ دنیا نے دیکھا اورآج بھی وہاں عوام کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں۔

ہمارے ہاں تو عام جلسے جلوسوں اور سیاسی احتجاجوں میں جلاو گھیراو کر دیا جاتا ہے۔ اگر خدانخواستہ پاکستان ڈیفالٹ کر جاتا ہے تو نجانے یہاں کیا کیا کچھ ہو جائے گا، یاد رہے کہ پاکستان ایک نیوکلیئر ریاست ہے اور اگر یہاں بدامنی کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں تو دنیا ہم سے جو مطالبے کر سکتی ہے اُس کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے۔ ابھی جو سخت فیصلے کئے جانے کی ضرورت ہے اُن سے ن لیگ کو سیاسی نقصان ہونے کا اندیشہ ہے لیکن اگر ہم ڈیفالٹ کی طرف چلے گئے تو نقصان پاکستان کا ہو گا،عوام کا ہو گا اور ن لیگ کی سیاست کا تو بالکل ستیاناس ہو جائے گا۔ معیشت کے متعلق جو سخت فیصلے کرنے کا سوال ہے تو وہ یہ کہ پیٹرول اور ڈیزل تیس چالیس روپے فی لیٹر مہنگا ہو گا، جس سے سب کچھ مہنگا ہو جائے گا۔ ڈالر کے مقابلہ میں روپیہ مزید گرے گا جس کا مطلب ہے مزید مہنگائی۔ اس سے عوام خاص طور پر غریب اور مڈل کلاس کے حالات مزید خراب ہوں گے لیکن حکومت اگر اپنی گورننس کو بہتر کرے، معیشت کی بہتری اور اخراجات میں کمی لانے کیلئے ضروری اقدامات کرے تو حالات مہینوں میں ہی بدلنا شروع ہو جائیں گے۔

پاکستان میں پیسے والے لوگوں کی کمی نہیں لیکن ہم دنیا کے اُن چند بدقسمت ممالک میں شامل ہیں جہاں ٹیکس دینے والے بہت کم ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کاروباری لوگ، بڑے بڑے جاگیردار اور کروڑوں اربوں کمانے والے ٹیکس نہیں دیتے اور اگر دیتے ہیں تو بہت کم اور اس کیلئے اُنہوں نے پارلیمنٹ اور حکومتوں کے ذریعے قانونی رستے نکال رکھے ہیں۔ سیاست میں بڑے بڑے امیر لوگ اور ارب پتی بھی کروڑوں اربوں کماتے ہیں لیکن کم آمدنی ظاہر کر کے ٹیکس چوری کرتے ہیں اور جو آمدنی چھپائی جاتی ہے اُسے قانونی رستوں سے منی لانڈرنگ کے ذریعے وائٹ کر لیا جاتا ہے۔غریب کو تو indirect ٹیکسوں کے ذریعے نچوڑ دیا جاتا ہے اور اس طرح غریب کا خون چوس کر اکٹھے کئے گئے پیسے کو اشرافیہ کی عیاشیوں پر خرچ کر دیا جاتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ امیر سے، تاجروں سے، بڑے بڑے زمینداروں سے ٹیکس لیں اور غریب پر خرچ کریں لیکن جب اس کیلئے کوئی کوشش کرتا ہے جیسا کہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمعیل نے ایک بار کیا تو پھر مریم نواز کا حکم آ جاتا ہے کہ تاجروں پر سے ٹیکس واپس لو۔ بھئی اگر تاجر ٹیکس نہیں دیں گے، بڑے بڑے کاروباریوں کیلئے ٹیکس چوری کرنے کیلئے منی لانڈرنگ کے رستے کھلے رہیں گے تو پھر غریب بھوک کی وجہ سے خودکشی پر کیوں مجبور نہ ہو گا تو کیا ہو گا۔؟ مشکل فیصلوں سے مستقبل میں جان چھڑانی ہے تو پھر اپنی گورننس کو ٹھیک کریں، بجلی و گیس کی چوری کو روکیں، جو بل نہ دے اُس کا کنکشن کاٹیں۔ حکومت نااہل ہو گی گیس بجلی کی چوری کو نہیں روک پائے گی، وصولیاں کرنے میں ناکام ہو گی تو اس سے گردشی قرضوں میں اربوں کا اضافہ ہوتا جائے گا اور اس نااہلی کی وجہ سے حکومت عوام کیلئے بجلی اور گیس مزید مہنگی کرنے کا آسان فیصلہ کر دیتی ہے۔

یعنی امیر کی ٹیکس چوری اور حکمرانوں کی نااہلی کی سزا غریب عوام کو دی جاتی ہے۔ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود اب تو ہم گندم تک اپنی ضرورت کیلئے پیدا نہیں کر پا رہے۔ زرعی شعبہ پر ہی توجہ دی جاتی تو ہماری معیشت کا یہ حال نہ ہوتا لیکن اب تو حال یہ ہے کہ ہم سالانہ لاکھوں ایکڑ کی زرعی زمین ہاؤسنگ سوسائٹیاں کے حوالے کرتے جا رہے ہیں۔ نجانے بیس پچیس سال بعد پاکستان کا کیا حال ہو گا؟ ساری دنیا میں شام کو بازار اور مارکٹیں بند ہو جاتی ہیں اور اس سے بجلی کی بہت بچت ہوتی ہے لیکن ہم بضد ہیں کہ بازار رات گئے تک کھلے ہی رہیں گے۔ اگر حکومت فیصلہ کر لے تو کوئی سنتا ہی نہیں اور یہ بھی حکومت کی نااہلی ہے۔ سب سے افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان، چاہے کسی بھی سیاسی جماعت کا نام لے لیں، وہ معیشت پر سیاست کرنے سے باز نہیں آتے یعنی ایک تو مل بیٹھ کر پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے پر تیار نہیں، اوپر سے اگر کچھ اچھا ہونے بھی لگے تو اُس پر سیاست کر کے اُسے ناکام بنا دیتے ہیں۔ یہ کیسے لوگ ہیں!!

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ

Comment
Like
Tip icon image You can also reply to this email to leave a comment.

Unsubscribe to no longer receive posts from Pakistan Insider.
Change your email settings at manage subscriptions.

Trouble clicking? Copy and paste this URL into your browser:
https://pakistaninsiders.wordpress.com/2023/01/05/%d8%ad%da%a9%d9%88%d9%85%d8%aa-%da%86%da%be%d9%88%da%91-%d8%af%db%8c%da%ba-%d8%a7%da%af%d8%b1-%d8%9f/

Powered by WordPress.com
Download on the App Store Get it on Google Play
at January 04, 2023
Email ThisBlogThis!Share to XShare to FacebookShare to Pinterest

No comments:

Post a Comment

Newer Post Older Post Home
Subscribe to: Post Comments (Atom)

The Artist Date

Finding my Muse as NorthPark Mall ͏     ­͏     ­͏     ­͏     ­͏     ­͏     ­͏     ­͏     ­͏     ­͏     ­͏     ­͏     ­͏     ­͏     ­͏     ­͏...

  • [New post] Wiggle Kingdom: April Earnings on Spring Savings!
    Betsi...
  • [New post] Balancing the ‘E’ and ‘S’ in Environment, Social and Governance (ESG) crucial to sustaining liquidity and resilience in the African loan market (By Miranda Abraham)
    APO p...
  • Something plus something else
    Read on bl...

Search This Blog

  • Home

About Me

RelationDigest
View my complete profile

Report Abuse

Blog Archive

  • August 2025 (5)
  • July 2025 (59)
  • June 2025 (53)
  • May 2025 (47)
  • April 2025 (42)
  • March 2025 (30)
  • February 2025 (27)
  • January 2025 (30)
  • December 2024 (37)
  • November 2024 (31)
  • October 2024 (28)
  • September 2024 (28)
  • August 2024 (2729)
  • July 2024 (3249)
  • June 2024 (3152)
  • May 2024 (3259)
  • April 2024 (3151)
  • March 2024 (3258)
  • February 2024 (3046)
  • January 2024 (3258)
  • December 2023 (3270)
  • November 2023 (3183)
  • October 2023 (3243)
  • September 2023 (3151)
  • August 2023 (3241)
  • July 2023 (3237)
  • June 2023 (3135)
  • May 2023 (3212)
  • April 2023 (3093)
  • March 2023 (3187)
  • February 2023 (2865)
  • January 2023 (3209)
  • December 2022 (3229)
  • November 2022 (3079)
  • October 2022 (3086)
  • September 2022 (2791)
  • August 2022 (2964)
  • July 2022 (3157)
  • June 2022 (2925)
  • May 2022 (2893)
  • April 2022 (3049)
  • March 2022 (2919)
  • February 2022 (2104)
  • January 2022 (2284)
  • December 2021 (2481)
  • November 2021 (3146)
  • October 2021 (1048)
Powered by Blogger.