RelationDigest

Wednesday, 4 January 2023

[New post] ڈارنامکس نے ہماری معاشی مشکلات میں اضافہ کیا ہے

Site logo image KHAWAJA UMER FAROOQ posted: " سنہ 2022ء کسی بھی تناظر سے یادگار سال نہیں رہا۔ یہ ایک ایسا سال تھا جہاں سیاسی اور معاشی عدم استحکام اپنے عروج پر رہا جبکہ ملک میں دہشتگردی نے بھی دوبارہ سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ سیاسی عناصر اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہونے والی مسلسل تکرار نے ملک کو خانہ " Pakistan Insider

ڈارنامکس نے ہماری معاشی مشکلات میں اضافہ کیا ہے

KHAWAJA UMER FAROOQ

Jan 5

سنہ 2022ء کسی بھی تناظر سے یادگار سال نہیں رہا۔ یہ ایک ایسا سال تھا جہاں سیاسی اور معاشی عدم استحکام اپنے عروج پر رہا جبکہ ملک میں دہشتگردی نے بھی دوبارہ سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ سیاسی عناصر اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہونے والی مسلسل تکرار نے ملک کو خانہ جنگی کی حالت میں ڈال دیا۔ اس صورتحال میں کہ جہاں ہماری معیشت بدترین حالات سے دوچار ہے، وہیں ہمارے اوپر ممکنہ ڈیفالٹ کے بادل بھی منڈلا رہے ہیں۔ جبکہ پاکستان کو سنگین اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ کیا آنے والے سال میں ہم مسائل کے اس دلدل سے نکل پانے میں کامیاب ہو پائیں گے؟ بدقسمتی سے ہم ان بدترین حالات کے ساتھ نئے سال میں داخل ہو رہے ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے اقتصادی فیصلے بالکل بھی حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ آپسی اختلاف رکھنے والے اس اتحاد میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ملک کی مشکلات کو دُور کر سکے۔ یہ اتحاد درست فیصلے کر پانے میں ناکام ہو گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں معاشی بحران مزید سنگین ہو گیا ہے۔ اندرونی کشمکش کی وجہ سے اتحادی اپنی اصلاح کرنے میں بھی ناکام نظر آرہے ہیں۔

پاکستان اس وقت معاشی تباہی کے دہانے پر ہے۔ ہم پہلے ہی ممکنہ ڈیفالٹ کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج سے متعلق مذاکرات بھی جاری ہیں۔ ہمارے زرِمبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر ہیں جس سے بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں پر سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ یہ ایک انتہائی تشویشناک صورتحال ہے جبکہ ملک کے معاشی منظرنامے میں کوئی واضح تبدیلی کے امکانات بھی نظر نہیں آرہے ہیں۔ صرف بیرونی قرضوں کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ اندرونی قرضوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے بھی ملک دیوالیہ ہونے کے نزدیک ہے۔ پاکستان کا شمار اب دنیا کے کمزور ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ 'ڈارنامکس' نے ہماری معاشی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ مہنگائی آسمان کو چُھو رہی ہے اور بینکوں کی جانب سے لیٹر آف کریڈٹ جاری نہ ہوپانے کی وجہ سے صنعتی پیداوار شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ بہت سے صنعتی حلقے بند ہو چکے ہیں یا پھر وہ جزوی طور پر کام کر رہے ہیں۔ ماضی کی حکومتیں مسائل کو وقتی طور پر حل کردیتی تھیں لیکن اب صورتحال عارضی انتظامات سے قابو میں نہیں آئے گی۔

عالمی منڈی میں پیٹرول اور اجناس کی قیمتوں میں اضافے جیسے بیرونی عناصر نے بھی ہماری اقتصادی مشکلات میں حصہ ڈالا ہے لیکن یہ سب ہماری پالیسیوں کی ناکامی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم بحران کا شکار ہیں۔ موجودہ مالیاتی ٹیم کی موجودگی میں ملکی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے نکل پانے کی امیدیں بہت کم ہیں۔ اندرونی استحکام اور ایٹمی قوت کی سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہے اور ملکی معاشی مضبوطی آنے والے سال کا سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ موجودہ قومی اسمبلی کی مدت اگست 2023ء میں پوری ہو جائے گی جبکہ ملک میں اس وقت قبل ازوقت انتخابات کے امکانات نہایت کم ہیں۔ عام انتخابات کے انعقاد میں صرف 8 ماہ کا وقت رہ گیا ہے جبکہ سیاسی جماعتوں کی تکرار کی وجہ سے ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد مشکوک لگ رہا ہے۔ صوبہ پنجاب میں جاری سیاسی جنگ نے سیاسی ماحول کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ اگر پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی تحلیل ہو جائیں گی تو اس سے صورتحال مزید غیرمستحکم ہو سکتی ہے اور اس سے وفاقی حکومت پر دباؤ بھی بڑھے گا۔

اگرچہ عسکری قیادت سیاسی معاملات میں دخل اندازی کرنے سے دُور رہنے کا اعادہ کر چکی ہے لیکن اس کے باوجود وہ سیاسی منظرنامے میں اثرانداز ہورہی ہے۔ اپنے 4 سالہ دور میں ہونے والے تمام غلط اقدامات کا ذمہ دار گزشتہ آرمی چیف کو ٹھہرانے والے عمران خان اب یہ چاہتے ہیں کہ نئے آرمی چیف اسٹیبلشمنٹ کی ماضی کی کوتاہیوں کو درست کرنے کے لیے سیاست میں مداخلت کریں۔ سابق وزیرِاعظم عمران خان اسٹیبلشمنٹ کو مداخلت کی دعوت دے کر خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ عمران خان اور ان کی جماعت کا حکومت سے مذاکرات سے انکار اور قومی اسمبلی میں پاکستان تحریکِ انصاف کی عدم موجودگی نے جمہوری سیاسی عمل کو کمزور کر دیا ہے۔ شدید سیاسی بحران میں اس بات کا خدشہ ہمیشہ رہتا ہے کہ کہیں فوج سیاست میں مداخلت نہ کر دے۔ اب یہ اسٹیبلشمنٹ کا امتحان ہو گا کہ وہ اقتدار کے اس کھیل میں کیسے غیر سیاسی رہتے ہیں۔

اس دوران کہ جب ہم سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کا سامنا کر رہے ہیں، ایسے میں پاک سرزمین پر دہشتگردوں کی واپسی نے ہمارے سیکیورٹی مسائل بھی بڑھا دیے ہیں۔ دہشتگردی کی نئی لہر نے دارالحکومت اسلام آباد کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جس نے افغانستان سے کام کرنے والے عسکریت پسند گروہوں کی بحالی کا اشارہ دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں خودکش حملہ کیا گیا جس کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی تھی۔ اس حملے نے ہمیں یاددہانی کروائی کہ دہشتگردی کا یہ سنگین خطرہ اب دارالحکومت تک پہنچ چکا ہے۔ اسلام آباد کی سیکیورٹی ہائی الرٹ پر ہے۔ بڑھتی ہوئی سیاسی کشمکش میں دہشتگردی ایک بھیانک خواب کی مانند ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں دہشتگردانہ حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ، خودکش حملے اور سیکیورٹی تنصیبات پر حملے اب خیبرپختونخوا میں روز کا معمول بن چکا ہے۔

افغانستان کی سرحد سے متصل اس صوبے میں ٹی ٹی پی نے گزشتہ 3 ماہ میں 141 حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ان عسکریت پسند گروہوں کا اصل ہدف قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں جبکہ یہ گروہ ایسے کام کر رہے ہیں جیسے وہ سزاؤں سے مستثنیٰ ہوں۔ دہشتگردی کے سامنے بدقسمتی سے صوبائی انتظامیہ بے بس نظر آرہی ہے۔ دہشتگردی کی اس نئی لہر نے صرف خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو ہی اپنی لپیٹ میں نہیں لیا۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ پریشان کُن عنصر ٹی ٹی پی اور بلوچستان علحیدگی پسند گروہوں کا الحاق ہے۔ یہ دونوں گروہ مغربی صوبے میں سیکیورٹی فورسز پر حملے کے تازہ سلسلے کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ماضی میں ان پر کافی حد تک قابو پالیا تھا لیکن حالیہ حملے اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ علحیدگی پسند گروہ ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔ عسکریت پسند گروہوں کا ایک بار پھر سرگرم ہونا ہماری انسدادِ دہشتگردی کی حکمتِ عملی پر سوالیہ نشان ہے۔

ہم اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ کس طرح دہشتگردوں کے سامنے ہماری سیکیورٹی ادارے ناکام ہو رہے ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کی واپسی کی وجہ سے سرحد پار عسکریت پسند گروہوں کو تقویت ملی ہے۔ پاکستان میں ہونے والے حالیہ دہشتگردانہ حملوں کی جڑیں افغان طالبان کے عالمی دہشتگرد نیٹ ورک کی سرپرستی میں ہیں۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان کو بیرونی محاذ پر بھی لاتعداد چیلنجز کا سامنا ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتی علاقائی جغرافیائی سیاست کے براہِ راست اثرات ہماری قومی سلامتی پر پڑ رہے ہیں۔ مغربی سرحد پر بڑھتے ہوئے دباؤ نے ہماری قومی سلامتی خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ اسلام آباد اور کابل کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات بھی کچھ اچھا خاکہ پیش نہیں کررہے ہیں۔ اندرونی اور بیرونی محاذ پر ہم ان متعدد چیلنجز کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں، یہ ہمارے ملک کے مستقبل کے لیے اہم ہو گا۔ ایک بار پھر ہم متعدد سوالات کے ساتھ نئے سال میں داخل ہورہے ہیں جبکہ یہ مسائل حل ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں۔

زاہد حسین
یہ مضمون 28 دسمبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

بشکریہ ڈان نیوز

Comment
Like
Tip icon image You can also reply to this email to leave a comment.

Unsubscribe to no longer receive posts from Pakistan Insider.
Change your email settings at manage subscriptions.

Trouble clicking? Copy and paste this URL into your browser:
https://pakistaninsiders.wordpress.com/2023/01/05/%da%88%d8%a7%d8%b1%d9%86%d8%a7%d9%85%da%a9%d8%b3-%d9%86%db%92-%db%81%d9%85%d8%a7%d8%b1%db%8c-%d9%85%d8%b9%d8%a7%d8%b4%db%8c-%d9%85%d8%b4%da%a9%d9%84%d8%a7%d8%aa-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%a7%d8%b6%d8%a7/

Powered by WordPress.com
Download on the App Store Get it on Google Play
at January 04, 2023
Email ThisBlogThis!Share to XShare to FacebookShare to Pinterest

No comments:

Post a Comment

Newer Post Older Post Home
Subscribe to: Post Comments (Atom)

The Only Correct Decision, Part II

Dropping the atomic bombs on Hiroshima and Nagasaki was not only justified, but the best possible decision given the circumstances. ͏     ­͏...

  • [New post] Wiggle Kingdom: April Earnings on Spring Savings!
    Betsi...
  • [New post] Balancing the ‘E’ and ‘S’ in Environment, Social and Governance (ESG) crucial to sustaining liquidity and resilience in the African loan market (By Miranda Abraham)
    APO p...
  • Something plus something else
    Read on bl...

Search This Blog

  • Home

About Me

RelationDigest
View my complete profile

Report Abuse

Blog Archive

  • August 2025 (22)
  • July 2025 (59)
  • June 2025 (53)
  • May 2025 (47)
  • April 2025 (42)
  • March 2025 (30)
  • February 2025 (27)
  • January 2025 (30)
  • December 2024 (37)
  • November 2024 (31)
  • October 2024 (28)
  • September 2024 (28)
  • August 2024 (2729)
  • July 2024 (3249)
  • June 2024 (3152)
  • May 2024 (3259)
  • April 2024 (3151)
  • March 2024 (3258)
  • February 2024 (3046)
  • January 2024 (3258)
  • December 2023 (3270)
  • November 2023 (3183)
  • October 2023 (3243)
  • September 2023 (3151)
  • August 2023 (3241)
  • July 2023 (3237)
  • June 2023 (3135)
  • May 2023 (3212)
  • April 2023 (3093)
  • March 2023 (3187)
  • February 2023 (2865)
  • January 2023 (3209)
  • December 2022 (3229)
  • November 2022 (3079)
  • October 2022 (3086)
  • September 2022 (2791)
  • August 2022 (2964)
  • July 2022 (3157)
  • June 2022 (2925)
  • May 2022 (2893)
  • April 2022 (3049)
  • March 2022 (2919)
  • February 2022 (2104)
  • January 2022 (2284)
  • December 2021 (2481)
  • November 2021 (3146)
  • October 2021 (1048)
Powered by Blogger.